INSANI ROOH KI HAQEEQAT | Rooh Nikalnay Ka Khofnaak Manzar | Life After Death

 

INSANI ROOH KI HAQEEQAT | Rooh Nikalnay Ka Khofnaak Manzar | Life After Death
Rooh Nikalnay Ka Khofnaak Manzar

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کروڑ ہا درود وسلام نبی پاک ﷺکی ذات اقدس پر

شا جی انفو دیکھنے والے تمام دوست  احباب کو اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

دوستو کیسے ہو امید ہے کہ سب خیریت سے ہوں گے اللہ آپ لوگوں کو ایسے ہی خوش رکھے۔

پیارے ناظرین کرام! ہر شخص اس بات کے بارے میں جاننا چاہتا ہے کہ انسان کی جب روح نکلتی ہے تو اس کی حالت کیا ہوتی ہے. اوراس کے ساتھ ساتھ شیطان ابلیس اس کے کان میں کیا مشورہ دیتا ہے. آج کی اس ویڈیو میں وہ بات بتائی جائے گی جوشائد بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں اور آپ کو  بھی آج سے پہلے معلوم نہیں ہوگی۔ اس بارے میں مکمل تفصیلات جانیے۔جب روح نکلتی ہے تو انسان کا منہ کھل جاتا ہے، ہونٹ کسی بھی قیمت پر آپس میں چپکے ہوئے نہیں رہ سکتے۔ روح پیر کو کھینچتی ہوئی اوپر کی طرف آتی ہے، جب پھیپھڑوں  اور دل تک روح  کھینچ لی جاتی ہے اور انسان کی سانس باہر ہی چلنے لگتی ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب چند لمحوں میں انسان شیطان اور فرشتوں کو دنیا میں اپنے سامنے دیکھتا ہے۔ ایک طرف شیطان اس کے کان میں کچھ مشورے دیتا ہے، تو دوسری طرف اس  کی زبان  اس کے عمل کے مطابق کچھ الفاظ  ادا کرنا چاہتی ہے۔ اگر انسان نیک ہو تو اس کا دماغ اس کی زبان کو کلمہ شہادت کی ہدایت دیتا ہے۔ اگر انسان کافر ہو ،بد دین ہو،مشرک ہو،دنیا پرست ہو،تو اس کا  دماغ کنفیوژن اور اک عجیب  و غریب  ہیبت کا شکار ہو کر شیطان کے مشورے  کی پیروی کرتا ہے ۔اور بہت ہی مشکل سے کچھ الفاظ زبان سے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ یہ سب اتنی تیزی سے ہوتا ہے کہ دماغ کو دنیا کی فضول باتوں کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔انسان کی روح نکلتے ہوئے ایک زبردست تکلیف ذہن محسوس کرتا ہے۔ لیکن تڑپ نہیں پاتا کیونکہ دماغ کو چھوڑ کر باقی جسم کی روح اس  کے  حلق میں اکھٹی ہو جاتی ہے ۔اور جسم گوشت کے بے جان لوتھڑے کی طرح پڑھا ہوا ہوتا ہے۔اس میں کوئی حرکت کی گنجائش نہیں رہتی۔آخر میں  دماغ کی روح بھی کھنچ لی  جاتی ہے، آنکھیں روح کو لے جاتے ہوئے دیکھتی ہیں، اس لیے  آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑھ جاتی ہیں ،جس وقت  فرشتہ روح قبض کر کے جاتا ہے،آنکھیں اس  سمت کی طرف ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد انسان کی زندگی کا  اصل سفر شروع ہوتا ہے جس میں روح تکلیفوں کےتہہ خانوں  سے لے کرآرام  کے محلات کی آہٹ محسوس کرنے لگتی ہے، جیسا کہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ جو دنیا سے گیا واپس کبھی  لوٹ کر نہیں آیا۔ صرف اس لئے کہ  روح عالم برزخ کا انتظار کر رہی ہوتی ہے جس میں اس کا ٹھکانہ ا سے دے  دیا جائے گا۔ اس دنیا میں محسوس  ہونے والی طویل مدت ان   روحوں  کے لیے چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اگر کوئی آج  سے کروڑ  سال پہلے ہی کیوں نہ مر چکا ہو۔ مومن کی روح اس طرح کھنچ لی  جاتی ہے جیسے آٹے سے بال  نکالا جاتا ہے، اور گناہ گار کی روح خاردار درخت پر پڑے سوتی کپڑے کی طرح کھنچی  جاتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو موت کے وقت کلمہ نصیب فرما کر آسانی کے ساتھ روح قبض فرمائے ۔اور موت کے تمام لمحات کو اپنی رحمت کے ساتھ آسان بنائے ۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی روح لینے کے لیے ملک الموت آئے  تو انہوں نے فرمایا کیا آپ نے کسی ایسے دوست کو دیکھا ہے، جو اپنے خلیل کی روح  کو قبض کر رہا ہو، انہوں نے کہا اچھا اللہ تعالی سے پوچھتاہوں ملک الموت نے اللہ تعالی کے حضور عرض کیا اللہ نے فرمایا کہ جاؤ میرے حبیب کو پیغام دے دو کہ تم نے  کسی دوست کو دیکھا کہ اپنے دوست کی ملاقات سے انکار کر رہا ہو۔ جیسے ہی حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو پتہ چلا کہ موت اللہ تعالی کی ملاقات کا طریقہ ہے، کہنے لگے ملک الموت جلدی کر، جلدی کر، روح قبض کر۔ مجھے اپنے مالک سے واصل کردے۔ یہ تھی تمنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی۔کہ اب تو  جلد سے جلد اپنے پیارے اللہ کے حضور جا پہنچیں اور ملاقاتِ حبیب سے لطف اندوز ہوں۔ اس لئے حدیث قدسی میں فرمایا ملاقات کرکے میرے نیک لوگوں کا شوق میری ملاقات کے لیے بڑھ گیا، اور میں ان کی ملاقات کے لیے ان سے بھی زیادہ مستحق ہوں۔ جب روح نکلتی ہے تو انسان کا منہ کھل جاتا ہے ،ہونٹ کسی بھی قیمت پر آپس میں چپکے ہوئے نہیں رہ سکتے، روح  پیر کو کھینچتی ہوئی اوپر کی طرف آتی ہے جب پھیپھڑوں اور دل تک  روح کھنچ لی جاتی ہے تو انسان  کی سانس باہر کی طرف چلنے لگتی ہے، اور شیطان کی جو  بات کی گئی کہ شیطان اس کے کان میں  کچھ مشورے  تجویز کرتا ہے، تو دوسری طرف اس کی زبان اس کے عمل کے مطابق کچھ الفاظ ادا کرنا چاہتی ہے اور وہ  مشورے کچھ اور نہیں ہوتے بلکہ مشورے  یہ دیے جاتے ہیں کہ تُوکلمہ  نہ ادا  کر ، تُو ایسا کوئی کلمہ ادا نہ کر جس سے یہ محسوس ہونے لگ جائے کہ تو مسلمان ہے یا تُو اللہ کا  برگزیدہ بندہ ہے۔  اب سوال  یہ پیدا ہو تاہے، کہ انسان کی روح ایسی کیا خاصیت رکھتی ہے، ایسی کیا چیز رکھتی ہے جس کے بارے میں اتنی تحقیق ہونے  لگ گئی، کہ انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کی بات ہونے لگی، اس کی رفتار کو ماپنے کی  بات ہونے  لگ گئی ،اور یہاں تک کہ یہ باتیں بھی  ہونے لگیں کہ انسانی روح جب جسم سے نکلتی ہے اس وقت جسم میں کچھ ہی دیر بعد بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس پر بھی تحقیق ہونے لگی۔ 

یعنی اس بات پر بھی  تحقیق ہونے لگی کہ انسان  جسم سے روح نکلنے کی رفتار کتنی ہوتی ہے۔ انسانی جسم سے روح کس رفتار سے قبض ہوتی  ہے یا موت کتنی تیزی کے ساتھ انسانی جسم میں سرایت کرتی ہے۔ اس بات کو تلاش کرنے کے لئے امریکہ کے ماہرین  نے تحقیق  کی ۔ان محقیقین نے  مختلف تحقیقات کر کے نتائج اخذ کرنے کی کوشش بھی کی۔ اسی طرح امریکہ کے ماہرین نے ایک  اور تجزیہ کیا جس میں روح قبض  ہونے کی رفتار کو دیکھا گیا۔ امریکہ کی ایک  یونیورسٹی کے ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ موت  کے کچھ عرصے بعد  تک انسان کے بال اور ناخن بڑھتے رہتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جسم کے تمام خلیات بیک وقت مردہ نہیں ہوتے، بلکہ موت انسانی جسم میں آہستہ آہستہ سفرطے  کرتی ہے۔ ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ انسانی جسم میں موت کے پھیلاؤ کی رفتار  ریکارڈ کرنےاور اس کا مشاہدہ کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ موت  تقریبا دو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے انسان جسم میں سفر کرتی ہے۔ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے جسم کے خلیات کے درمیان ایک سینٹی میڑ کا فاصلہ ہے۔ انسان کا مکمل مرنے میں تقریبا پانچ گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔ ایک امریکی جریدے سائنس اینڈ ہیلتھ  میں شائع ہونے والی  تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ روح قبض  ہونے  کی رفتار کو ریکارڈ کرنے کے لیے انتہائی پیچیدہ مراحل کا سامنا کرنا پڑا  جس میں کئی بار ناکامی بھی ہوئی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلےدسمبر 2017 میں  ماہرین نے موت کے بعد انسانی دماغ کے کام کرنے کے حوالے سے تحقیق کی تھی۔ جس کی بنیاد پر ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ انسان کو اپنی موت کا خود بھی احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ اس وقت دماغ کام کر رہا ہوتا ہے ماہرین نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ طویل عرصے بعد از موت کے حوالے سے جاری تحقیقات کے حتمی  نتیجے پر پہنچ چکے ہیں۔اب یہ جو بات کہی  جاتی ہے انسان کی موت تکلیف دہ ہوتی ہے ،یا آسان ہوتی ہے اس بات کا مرنے والے  انسان کو بھی پتہ چلتا ہے ۔  تحقیق کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ کیسے انسان کو پتہ چلتا ہے کہ موت  میرے لئے تکلیف دہ ہے یا آسان ہے کیونکہ ایک بات کہی جاتی ہے جب انسان مر رہا ہو تو پھر مرتے ہوئے اسے کیسے احساس ہو  سوال یہ بھی پیدا ہو رہا تھا ،کہ اس تکلیف کی شدت کا اندازہ کوئی کیسے لگا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ بات تو سبھی لوگ جانتے ہیں کہ تکلیف کی شدت کا اندازہ جو ہے وہ انسان کا دماغ لگاتا ہے۔ انسانی دماغ تکلیف  کو  محسوس کرتا ہے۔ ہمارے جسم کے اندر جو خلیات  موجود ہوتے  ہیں یہ دماغ کو تکلیف  کی شدت کے بارے میں پیغام پہنچاتے ہیں۔ جب زندگی ختم ہو رہی ہوتی ہے، روح نکل رہی ہوتی ہے، تو تحقیق  یہ بات کہتی ہے کہ انسان اپنی موت کا احساس کر رہا ہوتا ہے کیونکہ اس کا  دماغ کام کر رہا ہوتاہے ۔جب  دماغ کام کر رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان محسوس کرسکتا ہے کہ اس کی روح آسانی سے نکالی گئی تھی یا  اس کی روح مشکل سے نکالی گئی۔

دوستو امید کرتے ہیں کہ ہماری آج کی یہ کاوش آپ کو  پسند آئی ہوگی اس  حوالے سے اپنی پسندیدگی کا اظہار اسےلائیک اور شیئر کرکے ضرور کیجئے گا ۔اور اپنی قیمتی آرا کمنٹ سیکشن میں ضرور دیں۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک  ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے