Dozakh Ke 7 Darjay | 7 Types Of JAHANNAM | Jibrail Aur Huzoor Ka Waqia | Dozakh Ki Aag Urdu & Hindi

Dozakh Ke 7 Darjay | 7 Types Of JAHANNAM | Jibrail Aur Huzoor Ka Waqia | Dozakh Ki Aag Urdu & Hindi
Dozakh Ke 7 Darjay | 7 Types Of JAHANNAM

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کروڑ ہا درود وسلام نبی پاک ﷺکی ذات اقدس پر

شا جی انفو دیکھنے والے تمام دوست  احباب کو اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اللہ کے محبوب حضرت محمد ﷺ نے محسوس کیا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کچھ غمزدہ ہیں ۔آپ ﷺ نے پوچھا کہ اے جبرائیل کیا معاملہ ہے؟میں آج آپ کو غمزدہ دیکھتا ہوں۔تو  حضرت جبرائیل ؑ نے کیا جواب دیااورآپ  اتنا غم زدہ کیوں تھے؟ پیارے دوستوحضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے محبوب خدا میں اللہ کے حکم سے آج جہنم کا نظارہ کر کے آیا ہوں۔ اس کو دیکھنے کی وجہ سے میرے اوپر غم کے اثرات ہیں۔آپﷺ نے پوچھا  جبرائیل بتاؤ  وہ  جہنم کے کون سے ایسے  حالات ہیں؟جن کی وجہ سے آپ اتنا غم زدہ ہو۔عرض کیا  اے اللہ کے نبی میں نے دیکھا کہ  جہنم کے اندر 7 درجے ہوں گے۔ ان میں سے جو سب سے نچلا ہو گا، اس کے اندر اللہ تبارک و تعالی منافقوں کو  رکھیں گے۔ اور اس کے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تبارک و تعالی مشرک  لوگوں کو ڈالیں گے۔ اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ تبارک وتعالی آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے۔ اس کے اوپر والے درجے میں یہودیوں کو ڈالیں گے۔ اور دوسرے درجے میں عیسائیوں کو ڈالیں گے۔ یہ کہہ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام خاموش ہو گئے محبوب خدا حضرت محمد ﷺ نے پوچھا کہ پہلے درجہ میں کون ہوں گے؟ حضرت جبرائیل ؑ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ سب سے اوپر والے یعنی پہلے درجے میں اللہ تبارک و تعالی آپ کی امت کے گناہ گاروں کو ڈالیں گے۔ جب آپ ﷺ نے یہ سنا کہ میری امت کے گناہ گاروں کو بھی جہنم میں ڈالا جائے گا۔ تو آپ ﷺ بہت غمگین ہوئے،اور آپ ﷺ نے اللہ کے حضور دعا کرنا شروع کر دی۔ روائیتوں میں آیا ہے کہ تین دن ایسے  ہی گزرے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نماز کے لیے تشریف لاتے، نماز ادا کرنے کے بعد  اپنے حجرہ مبارک میں تشریف لے جاتے، اور حجرہ مبارک کا  دروازہ بند کر لیتے۔ اور اپنے پروردگار کے سامنے دعاؤں میں مشغول ہوجاتے۔تما م  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ  یہ منطر دیکھ کر بہت  حیران ہوتے ،کہ حضرت محمد ﷺ پر یہ  کیا خاص کیفیت ہے ،کہ  جس کی وجہ سے آپ کسی سے بات چیت بھی نہیں کرتے، اور نماز کے بعد حجرہ مبارک کی تنہائی اختیار کر لیتے ہیں۔ گھر میں بھی تشریف نہیں لے جاتے۔یہ کیا معاملہ ہے ۔جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے برداشت نہ ہو سکا ۔وہ آپ ﷺکے حجرہ مبارک کے دروازے پر تشریف لائے ،اور دستک دی اور کہا السلام علیکم ،لبیک یا رسول اللہ، یعنی اللہ کے محبوب حضرت محمد ﷺ میں حاضر ہوں ۔اندر سے کوئی جواب نہیں ملا ،تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ غمگین چہرے کے ساتھ  واپس تشریف لے آتے ہیں۔ اور انہوں نے روتے ہوئے جا کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ میں  حضرت محمد ﷺ سے مل کر آ رہا ہوں۔ انہوں نے اس وقت  میرے سلام کا کوئی جواب نہیں دیا، لہذا آپ جائیں ممکن ہے کہ آپ کو سلام کا جواب مل جائے ۔چناچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حجرہ مبارک کے دروازے پر تشریف لائے ، انہوں نے بھی اونچی آواز سے تین مرتبہ سلام کہا، مگراس بار بھی  آپ ﷺ کی طرف سے  کوئی جواب نہ آیا۔ اور وہ بھی یہی سمجھےکہ ابھی دروازہ کھولنے کی اجازت نہیں ہے،لہذا آپ بھی بوجھل آنکھوں کے ساتھ  واپس تشریف لے آئے۔ واپسی پر ان کی ملاقات حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی ،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا  ،اےسلمان آپ کے بارے میں حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سلمان میرے اہل بیت میں سے ہیں، اس لیے آپ جائیں اور دروازہ کھلوانے کی کوشش کریں گے۔ سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لے گئے لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ تو انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ علی آپ حضرت محمد ﷺ کے پاس جائیں ،اور اُن سے ملاقات کرنے کی کوشش کریں ،شاید وہ آپ کی آواز  سن کر د روازہ کھول دیں ۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میری بجائے آپ ﷺ کے جگر گوشے  ،جن بات دو جہانوں کے سردار کبھی نہیں ٹالیں گے، حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کو بھیجتے ہیں، وہ اپنی لخت جگر کی بات کبھی نہیں ٹالیں گے۔ تو جب حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا تشریف لائیں، اور انہوں نے آپ ﷺکو سلام کیا،تو آپﷺنے ان کی آواز سن کر دروازہ کھولا، حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا عرض کرنے لگیں ،اے  محبوب خدا ﷺ وسلم آپ پر یہ کیا کیفیت  ہے کہ تین دن سے آپ مجلس میں بھی تشریف فرما نہیں ہوتے، حجرے کی تنہائی کو اختیار کیا ہوا ہے اور چہرہ انور پر بھی غم کے آثار ہیں ۔یہ کیا وجہ ہے۔ اس وقت حضرت محمد ﷺ نے یہ پوری بات بتائی ،کہ مجھے حضرت جبرائیل امینؑ نے آ کر بتایا کہ میری امت  کے کچھ گناہ گار لوگ جہنم میں جائیں گے۔اے فاطمہ ،اے میری پیاری بیٹی، مجھے اپنی امت کے ان گناہگاروں کا غم ہے، میں یہ  نہیں چاہتا کہ میری امت  کے لوگ دوزخ میں جائیں۔ اور میں اپنے مالک سے فریاد کر رہا ہوں کہ وہ میری امت کے  گنہگار لوگوں  کو جہنم کی آگ سے بری فرمادیں۔ یہ کہہ کرآپ ﷺنے اپنے رب کے حضور لمبا سجدہ فرمایا ،اور اس سجدے کے اندر بھی رو رو کر  اپنی اس امت کے لیے بخشش طلب کر رہے تھے۔بالآخر اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے  جبرائیل ؑ حاضر ہوئے اور عرض کی "ولاسوف یعطیک ربک فترضیٰ"ارشاد ہوا کہ اللہ تبارک و تعالی آپ کو اتنا عطا فرمائے گا ،کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ  اللہ تعالی نے مجھ سے وعدہ کر لیا ہے، کہ میرا رب مجھے قیامت کے دن راضی کرے گا ،اور میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا۔ جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہیں چلا جائے گا ۔سبحان اللہ،  میر ے آقا دو جہاں حضر ت محمد ﷺ کتنی عظیم ہستی ہیں،جو ہم جیسے گنہگاروں کے لیے روتے رہے، جنہوں نے ہمارے لیے سجدوں میں گر کر رو رو کر دعائیں کیں۔ ہماری خاطر انہوں نے اللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا ئیں مانگیں۔ ہم کتنے  خوش نصیب ہیں ،کہ اللہ نے ہمیں حضرت محمد ﷺکی امت میں پیدا فرمایا۔لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم  نبی پاک ﷺ کے بتائے طریقوں اورآپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں۔ہر وہ نیک کام کریں جس سے  ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی  ہمیں نیک اعمال کرنے اور آخرت کی تیاری کرنے  کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے