![]() |
| Nabi Ke Bachpan Ka Mojza |
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کروڑ ہا درود وسلام
نبی پاک ﷺکی ذات اقدس پر
شا جی انفو دیکھنے والے
تمام دوست احباب کو اسلام علیکم ورحمتہ
اللہ وبرکاتہ
پیارے
دوستو آج ہم آپ کو حضرت محمد ﷺ کے بچپن کا بکریاں چرانے کا بہت ہی خوبصورت اور ایمان افروز واقعہ بتانے والے ہیں۔ جس کو
سن کر آپ کا دل بھی خوش ہو جائے گا اور انشاءاللہ ایمان بھی تازہ ہو جائے گا۔ناظرین
کرام! حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی
عنہا جنہوں نے اللہ کے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بچپن میں پرورش کی۔ جو آپ کی دائی
مبارکہ بھی ہیں۔حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہافرماتی ہیں کہ جب سے محمد
میری زندگی میں آئے ہیں، تو ان کی برکت سے میری تو زندگی ہی بدل گئی ہے، آپ ﷺ کی برکیتیں اتنی
تھیں، کہ جن کو دیکھ کر محمد کا نام ہی برکت والا بچہ رکھ دیا ۔حضرت حلیمہ سعدیہ
رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بار ہمارے ہاں قحط سالی کا زمانہ آیا، سب کے جانور بھوک سے مرنے لگے مگر
جس طرف ہمارے بچے بکریوں کو لے کر جاتے تھے تو ہماری بکریاں خوب کھا کر اور پیٹ
بھر کر واپس آتی تھیں۔گاؤں والے اپنے بچوں
کو ڈانٹ کر کہنے لگے کہ جس طرف حلیمہ سعدیہ کے بچے بکریاں چرانے کے لیے جاتے ہیں
وہاں پر تم کیوں نہیں جاتے ہو۔ اس کے بعد
گاؤں والے دوسرے بچے بھی اپنی بکریاں لے کر حلیمہ سعدیہ کی بکریوں کے ساتھ لے جانے
لگے۔ اب سب لوگوں کی بکریاں ایک ساتھ چرنے
لگیں،مگر یہ دیکھ کر گاؤں والے حیران رہ
گئے کہ سب بکریاں ساتھ میں چر رہی ہیں، حلیمہ کی بکریوں کا پیٹ تو بھر رہا ہے،مگر
باقی بکریاں تو بھوکی رہتی ہیں۔ یہ دیکھ کر حلیمہ سعدیہ کہتی ہیں کہ سب برکت آمنہ
کے لال کی ہیں،یہ ساری برکتیں اس محمد کی
ہیں۔ اور حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ گاؤں میں جب بھی کسی
کی بکری بیمار ہو جاتی تو گاؤں والے اس بکری کو لے کر ہمارے گھر آتے اور محمد کا
ننھا سا ہاتھ بیمار بکری پر پھیر دیتے وہ
بکری ٹھیک ہوجاتی ۔اور یہی نہیں اگر گاؤں میں کوئی بچہ بیمار ہو جاتا تو اس بیمار
بچے پر بھی محمد کا ہاتھ پھیر دیتے تو وہ
بالکل ٹھیک ہوجاتا سبحان اللہ۔پیارے دوستو اللہ کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ جب حضرت حلیمہ
سعدیہ کے پاس پرورش پا رہے تھے اور جب آپ
کی عمر مبارک 3 سال کی ہو گئی تھی تو ایک دن حلیمہ سعدیہ کے سگی بیٹی اپنی ماں سے
کہنے لگی، یعنی آپ ﷺ کی منہ بولی بہن اپنی ماں حلیمہ سے کہنے لگی کہ جب میں بکریاں
چرانے کے لیے جاتی ہوں تو میرا وہاں پر اپنے بھائی محمد کے بغیر دل نہیں لگتا میری
ماں میرا ایک کام کرو جب میں بکریاں چرانے کے لیے جاؤ ں ،تومیرے بھائی محمد کو بھی
میرے ساتھ بھیج دینا ۔تو یہ سن کر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا کہنے لگی
نہیں بیٹی ابھی محمد بہت چھوٹا ہے ،ابھی وہ بہت نرم و نازک ہے ،کہیں اس کو دھوپ یا
گرمی نہ لگ جائے، دیکھو کتنا حسین اور
مبارک چہرہ ہے میں اس کو تکلیف نہیں دے سکتی ، میرا شہزادہ ہے اگر محمد کے پاؤں میں کوئی پتھر لگ جائے یا اگر جنگل میں جاتے ہوئے محمد کے
پیروں میں کوئی کانٹا چبھ گیا ،تو پھر کیا ہو گا ابھی بہت چھوٹا ہے، اس لیے میں اس
کو تمہارے ساتھ جنگل میں نہیں بھیج سکتی، جنگل میں جانور اس کو تکلیف پہنچائیں گے،
اس کو مشقت میں ڈالیں گے ۔یہ سن کر حضرت حلیمہ سعدیہ کی بیٹی کہنے لگی اے اماں جان تم دھوپ کی
بات کرتی ہو،جب میں کبھی بھائی محمد کے ساتھ باہر جاتی ہوں، تو آسمان سے بادل آکر ہم پر سایہ
کرتے ہیں، اور امی جان آپ جنگل کے جانوروں کی بات کرتی ہو، تو سنو جنگل کے جانور
بھائی محمد کے منہ کو چومتے ہیں، جانور تو ان کو سجدہ کرتے ہیں ،اور یہی نہیں جب
بھی ہم بھائی محمد کے ساتھ بکریاں چرانے
کے لیے جاتے ہیں، تو ہمارے سب کام آسان ہو جاتے ہیں، ہماری بکریاں بھی ادھر ادھر
نہیں جاتیں۔جب حضرت حلیمہ سعدیہ کی بیٹی بار بار اصرار کرنے لگیں تو حضرت حلیمہ
سعدیہ نے اجازت دے دی اس کے بعد دوسرے دن اللہ کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ اپنی بہن اور
بکریوں کے ساتھ جنگل میں بکریاں چرانے کے
لئے نکل پڑے۔آسمان سے بادل کا ٹکڑا آپ پر سایہ کئے ہوئے تھا۔ اس طرح چار پانچ دن آپ ﷺ اپنی منہ بولی بہن کے ساتھ
بکریاں چرانے کے لیے جاتے رہے،ایک دن حضرت
حلیمہ سعدیہ آپ ﷺ سے کہنے لگی! بیٹے محمد آج کے بعد تم بکریاں چرانے کے لیے نہیں
جاؤ گے، کیونکہ اب میں تمہیں اور تکلیف نہیں دے سکتی ۔اے میرے بیٹے مجھے تم سے بہت محبت ہے،
ایک تو مجھ سے تمہاری دوری برداشت نہیں ہوتی، اور دوسری بات تم میرے پاس بہت ہی عزیز امانت ہو۔ اس لئے آج تم
بکریاں چرانے کے لئے نہیں جاؤ گے، تم اپنے گھر میں ہی رہو گے، اس طرح حضرت حلیمہ سعدیہ نے حضرت محمد ﷺ کو بکریاں چرانے سے روک دیا۔ پھر آپ اپنی بہن کے ساتھ جنگل میں ایک دن نہیں گئے، اس کے بعد دوسرے دن
بھی نہیں گئے، اسی طرح سے آپ ﷺ تین دن تک بکریاں چرانے کے لئے جنگل میں نہیں گئے۔
تیسرے دن حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دیکھا کہ ان کا بیٹا روتا ہوا
ان کے گھر آیا ،یہ دیکھ کر حلیمہ سعدیہ نے پوچھا اے میرے بیٹے کیا ہوا ؟کیوں رو
رہے ہو؟ تو بیٹا کہنے لگا اماں ہماری ایک بکری کو جنگل میں ایک بھیڑیا اٹھا کر لے
گیا ہے۔ جب دائی حلیمہ نے اپنے بیٹے کی یہ بات سنی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
جو اللہ کے پیغمبر حضرت محمد مصطفیﷺنے اپنی ماں حلیمہ سعدیہ کی آنکھوں میں آنسو
دیکھے تو آپ کی بھی آنکھوں سے آنسو بہنے
لگے، کیونکہ آپ کا دل بچپن سے ہی بڑا نرم تھا ،کسی کا بھی دکھ آپ سے برداشت نہیں ہوتا تھا اور دائی حلیمہ تو آپ
کی والدہ محترمہ تھیں پھر آپ ﷺان سےکہنے لگے امی جان آپ روتی کیوں ہو؟ حلیمہ سعدیہ کہتی ہیں کہ اے بیٹا محمد ہماری
ایک بکری کو جنگل میں ایک بھیڑیا اٹھا کر لے گیا ہے، پتہ نہیں اب ہماری بکری کے
ساتھ وہ کیا کرے گا۔ یہ سن کر اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا امی جان آپ
رونا بند کر دو، ہم اپنی بکری کو ابھی
واپس لے کر آتے ہیں ۔یہ بات سن کر اماں حلیمہ کہنے لگی نہیں میرے بیٹے آپ جنگل میں
مت جانا،بھیڑیے خطرناک ہوتے ہیں وہ کہیں
آپ کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ اسی طرح دائی حلیمہ منع کرتی رہی لیکن آپ ﷺ کہنے لگے
نہیں اماں ہم ابھی کے ابھی بکری کو واپس لے کر آتے ہیں ۔اس کے بعد اللہ کے پیغمبر
حضرت محمد ﷺ بکری کی تلاش میں جنگل پہنچ
گئے ۔ اور ایک صدا لگائی ،صدا دی آپ
نے" اے ساکینے صحرا ادھر آؤ،
میری امی کی بکری لے گیا ہے کون بتلاؤ ،صدا
سنتے ہی سارے بھیڑیے سب جانور آئے، جھکا کرسر سلامی دی ادب اُن کا بجا لائے۔اے جنگل کے جانوروں میری اماں حلیمہ کی بکری واپس
کر دو بس آپ ﷺ کا اتنا ہی فرمانا تھا کہ جنگل کے تمام جانور بکری کو ساتھ لے کر
دوڑتے ہوئے آئے، اور آپ ﷺ کے قدموں میں جھک کر سلامی دینے لگے، اتنا کہہ کر وہ
بھیڑیے آپ کے قدموں میں بیٹھ گئے اور نہایت ادب کے ساتھ کہنے لگے اللہ کے نبی آپ
پر ہماری جان قربان۔ اتنا سن کر آپ ﷺ نے فرمایا اے جانوروں کیا آپ کو معلوم نہیں
تھا کہ یہ بکری ہماری اماں حلیمہ کی ہے۔
بتاؤ تم نے ہماری اماں کو تکلیف کیوں دی، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ابھی تک ہماری اما ں رو رہی ہیں۔ آپ نے کیوں ہماری اماں
کی بکری کو اٹھایا۔ تو وہ جانور کہنے لگے
اللہ کے رسول آپ بکریاں چرانے کے لیے کچھ
دن تو جنگل میں آئے ،اس وقت تو ہم چھپ کر آپ کے حسن کا دیدار کرتے رہے، اور دیکھتے
تھے کہ اس کائنات کے بنانے والے نے اپنا محبوب کتنا حسین بنایا ہے۔ اے اللہ کے
رسول اس کے بعد آپ نے جنگل میں آنا ہی بند کر دیا، تین دن گزر گئے آپ جنگل میں
تشریف نہیں لائے، تو یہ دیکھ کر ہم سب نے یہی سوچ لیا کہ حلیمہ کی بکری پکڑ لیں،
آپ پھر ضرور تشریف لائیں گے کیونکہ ہمیں پتا تھا کہ آپ اپنی دائی حلیمہ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے،اور ہم سب آپ
کا دیدار کر پائیں گے۔ ہم نے سوچا کہ اگر اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کے حسن کا
دوبارہ دیدار کرنا ہے تو حلیمہ کی بکری کو اٹھا لاؤ۔ محمد اس بکری کو چھڑانے کے
لیے ضرور آئیں گے، کیونکہ وہ اپنی ماں کو روتا ہوا نہیں دیکھ پائیں گے۔ اور اس طرح
سے ہمارا دیدار مصطفی ہو گا ،اور وہ جانور کہنے لگے اللہ کے رسول آپ پر ہماری جان
قربان۔ بہانہ تو اس بکری کا تھا ہمارا مقصد صرف آپ کا دیدار کرنا تھا اس لیے ہم نے
آپ کی اماں کی اس بکری کو نشانہ بنایا۔پیارے ناظرین کرام دیکھا آپ نے محبت کا یہ منظر، ان جانوروں میں شیر
جو خونخوار مانا جاتا ہے وہ بھی شامل تھا۔بھیڑے جو خونخوار مانے جاتے ہیں وہ بھی تھے، جنگل میں جتنے بھی خونخوار جانور تھے وہ بھی ان جانوروں میں شامل
تھے ۔اگر ایک بکری کو کوئی بھیڑیا اٹھا لے جاتا ہے، کوئی شیر اٹھا کر لے جاتا ہے
تو اسے چھوڑتا نہیں ہے اسے اپنی خوراک بنا لیتا ہے۔ لیکن آپ یہاں پر اس محبت کا
منظر دیکھیں کہ جانور بھی جس کو سجدہ کرتے ہیں،
ایسے ہی ہیں ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ۔ہم
کتنے خوش نصیب ہیں ،کہ اللہ نے ہمیں حضرت
محمد ﷺکی امت میں پیدا فرمایا۔لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم نبی پاک ﷺ کے بتائے طریقوں اورآپ کے بتائے ہوئے
راستے پر چلیں۔ہر وہ نیک کام کریں جس سے
ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے۔ اگر آپ کے دل میں یہی خواہش ہے تو کمنٹ سیکشن میں آمین ضرور لکھیے گا۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
ثم آمین ۔


0 تبصرے